Saturday, 25 March 2023

ہجرت مدینہ پر حدیث

صحیح البخاری- 2297  

میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا ۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ۔ ان سے یونس نے ، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں ۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا ۔ جب آپ برک الغماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی ۔ اس نے پوچھا ، ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے ۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں ۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے ۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں ۔ مہمان نوازی کرتے ہیں ۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں ۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں ۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے ۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا ۔ اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے ۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے ۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے ۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی ۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کر لیا کریں ۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں ، اور قرآن کی تلاوت کریں ، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں ۔ اور نہ اس کا اظہار کریں ، کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں ۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں ۔ تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے ۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی ۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے ۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے ۔ پس پھر کیا تھا ، مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا ۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے ۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا ۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا ۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے ۔ لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے ۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں ۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں ۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں ، پھر تو کوئی بات نہیں ، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کر دیں ۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑیں ۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا ۔ اب یا آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کر دیں ۔ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں ۔ میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں ۔ رسول کریم ﷺ ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے ۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے ۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے ۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ، جلدی نہ کرو ، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ضرور ! چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگے ، تاکہ آپ کے ساتھ ہجرت کریں ۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے ، انہیں  چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے ۔

Tuesday, 8 December 2015

اسلام میں عورت کے پردے کا بیان۔

Sunday, 6 December 2015

‫اللہ‬ بندے کو ‫سزا‬ کیوں دیتا ہے؟


‫اللہ‬ بندے کو ‫سزا‬ کیوں دیتا ہے؟
مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں
ہمارے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے پروفیسر ہوا کرتے تھے
میرے اُن سے اچھے مراسم تھے
یہ یو نیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا
اک دفعہ میں انکے دفتر گیا۔
مجھ سے کہنے لگے: مہران اک مزے کی بات سناؤں تمہیں؟ ؟
جی سر ضرور
پچھلے ہفتے کی بات ہے
میں اپنے دفتر می‍ں بیٹھا تھا
اچانک اک غیر معمولی نمبر سے مجھے کال آئ:
"پندرہ منٹ کے اندر اندر اپنی سراونڈگنز کی کلیئرنس دیں!""
ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ بکتر بند گاڑیاں گھوم کے میرے آفس کے اطراف میں آکر رکیں
سول وردی میں ملبوس تقریباً حساس اداروں کے لوگ دفتر می‍ں آئے
ایک آفیسر آگے بڑھا
امریکہ کی سفیر آئ ہیں
انکے کتے کو پرابلم ہے اسکا علاج کریئے
تھوڑی دیر بعد اک فرنگی عورت
انکے ساتھ انکا ایک عالی نسل کا کتا بھی تھا __
کہنے لگیں
میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئلہ ہے
میرا کتا نافرمان ہوگیا ہے _
اسے میں پاس بلاتی ہوں یہ دور بھاگ جاتا ہے
خدارا کچھ کریے یہ مجھے بہت عزیز ہے اسکی بے عتنائ مجھ سے سہی نہیں جاتی
میں نے کتے کو غور سے دیکھا ___
پندرہ منٹ جائز لینے کے بعد میں نے کہا
میم!!
یہ کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں میں اسکا جائزہ لے کے حل کرتا ہوں
اس نے بے دلی سے حامی بھرلی
سب چلے گئے.
میں نے کمدار کو آوز لگائ
فیضو اسے بھینسوں والے بھانے میں باندھ کے آ۔۔۔
سن اسے ہر آدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لتر مار۔۔
ہر آدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالنا.
جب پانی پی لے تو پھر لتر مار______!!!
کمدار جٹ آدمی تھا۔ ساری رات کتے کے ساتھ لتر ٹریٹ منٹ کرتا رہا.
صبح پورا عملہ لئے میرے آفس کے باہر
سفیر زلف پریشاں لئے آفس میں آدھمکی
________Sir what about my pup ?
I said ___Hope your pup has missed you too .....
کمدار کتے کو لے آیا.
جونہی کتا کمرے کے دروازے میں آیا
چھلانگ لگا کے سفیر کی گود میں آبیٹھا
لگا دم ہلانے منہ چاٹنے ________!!!
کتا مُڑ مڑ تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے تکتا رہا.
میں گردن ہلا ہلا کے مسکراتا رہا_____
سفیر کہنے لگی: سر آپ نے اسکے ساتھ کیا کیا کہ اچانک اسکا یہ حال ہے _____؟؟؟
میں نے کہا:
ریشم و اطلس ، ایئر کنڈیشن روم، اعلی پائے کی خوراک کھا کھا کے یہ خودکو مالک سمجھ بیٹھا
تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا.
بس
اسکا یہ خناس اُتارنے کے لیے اسکو ذرا سائیکولوجیکل پلس فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی
____وہ دیدی۔۔۔ ناؤ ہی از اوکے
Apart from the humour, Now read the first sentence again to understand the message
اللہ بندے کو سزا کیوں دیتا ہے؟
مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں.
سمجھنے والے اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنے آپ کو ضرور کھڑا کرے گے.
اللہ پاک تو ہمیں 70 ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور ہم ایک دن میں کتنی نعمتوں سے
فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اس دن میں استعمال کرنے والی نعمتوں کا شکر ایک دن بھی نہیں کرتے.
غفلتوں میں ڈوبے ہوئے جب وہ مالک اپنی یاد دلاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے ہم اسکو مان لیتے
ہیں اور پھر وہی دنیا کی بھاگ دوڑ وہی نہ شکری وہی نافرمانی
ایک دن تو اسکے پاس ہی جانا ہے ہم نے اور کچھ نہیں تو نماز کو اپنی عادت بنا لیجیے .
اللہ تعالٰی مجھے اور آپ سب کو اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرماۓ آمین۔
بحوالہ حافظ طارق

بازار میں داخل ہوتے وقت کی دعا

Thursday, 3 December 2015

نیا کام شروع کرنے کی دعا

Copyright @ 2013 ISLAM.