صحیح البخاری- 2297
میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیروکار پایا ۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ۔ ان سے یونس نے ، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں ۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا ۔ جب آپ برک الغماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی ۔ اس نے پوچھا ، ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے ۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں ۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے ۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں ۔ مہمان نوازی کرتے ہیں ۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں ۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں ۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے ۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا ۔ اور نہ اسے نکالا جا سکتا ہے ۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے ۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے ۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا ۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی ۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کر لیا کریں ۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں ، اور قرآن کی تلاوت کریں ، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں ۔ اور نہ اس کا اظہار کریں ، کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں ۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں ۔ تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کرنے لگے ۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے ۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی ۔ اب آپ ظاہر ہو کر وہاں نماز پڑھنے لگے ۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے ۔ پس پھر کیا تھا ، مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا ۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے ۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا ۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا ۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے ۔ لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے ۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں ۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں ۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں ، پھر تو کوئی بات نہیں ، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کر دیں ۔ کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑیں ۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا ۔ اب یا آپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کر دیں ۔ کیونکہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں ۔ میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں ۔ رسول کریم ﷺ ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے ۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے ۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ دو پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کر کے چلے گئے ۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ، جلدی نہ کرو ، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ضرور ! چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنے لگے ، تاکہ آپ کے ساتھ ہجرت کریں ۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے ، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے ۔
0 comments:
Post a Comment